خود نمائی دینی و تحریکی زندگی کا کینسر

خود نمائی دینی و تحریکی زندگی کا کینسر 

محمد رضی الاسلام ندوی

       کینسر ایک انتہائی مہلک مرض ہے _کسی اندرونی عضو میں لاحق ہوجائے تو بہ ظاہر آدمی صحت مند دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ مرض اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے، پھر اگر یہ اس عضو میں جڑ پکڑ لے اور دوسرے اعضا میں بھی سرایت کرجایے تو زندگی کی امید باقی نہیں رہتی اور موت یقینی ہوجاتی ہے _
          دینی اور تحریکی زندگی میں ٹھیک ایسا ہی مہلک مرض 'خود نمائی' ہے _ آدمی بہ ظاہر نیک کام کرتا  ہے، اس کی تقریروں اور تحریروں سے خلقِ خدا خوب فیض اٹھاتی ہے اور اس کی سرگرمیوں سے اسلام کا بڑے پیمانے پر تعارف ہوتا ہے، لیکن یہ مرض اس کی تمام نیکیوں کو غارت کرکے رکھ دیتا ہے _
            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :"قیامت کے دن سب سے پہلے تین افراد کو لایا جائے گا، ایک عالم ہوگا، دوسرا مجاہد اور تیسرا مال دار _اللہ ان کو اپنے احسانات یاد دلایے گا، وہ اپنی خدمات گناییں گے، لیکن اللہ تعالی فرمائے گا کہ تم نے یہ سارے کام دکھاوے، نمود و نمائش اور لوگوں سے داد وصول کرنے کے لیے کیے تھے ، اس کا صلہ تمھیں دنیا میں مل چکا ، پھر انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے انہی لوگوں کے ذریعے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی _"(حدیث کا خلاصہ) 
         راوی (شُفَیّ الاصبحی) بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنانی چاہی تو اس کے مضمون کی ہیبت سے حدیث سنانے سے پہلے ہی 4 مرتبہ بیہوش ہوئے، بہت مشکل سے انہیں ہوش میں لایا جا سکا _ بعد میں اسی راوی نے یہ حدیث دمشق میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے سنائی تو ان کی حالت بھی غیر ہوگئی اور بہت مشکل سے ان کی طبیعت بحال ہوئی _(ترمذی :2382)
           مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ "گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے لیے اس فتنہ سے بچنا نسبۃً بہت آسان ہے، مگر جو لوگ پبلک میں آکر اصلاح اور خدمت اور تعمیر کے کام کریں، وہ ہر وقت اس خطرے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس اخلاقی دق کے جراثیم ان کے اندر نفوذ کرجاییں _" انھوں نے لکھا ہے کہ" اس مرض سے بچنے کے لیے انفرادی کوشش بھی ہونی چاہیے اور اجتماعی کوشش بھی...... اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے، شوقِ نمائش کا ادنی سا اثر بھی جہاں محسوس ہو فوراً اس کا سدِّ باب کرے _جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمّت ہر دو سے بے نیاز ہوکر کام کی ذہنیت پیدا کرے اور اس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمّت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے _ 

دوران تلاوت غنہ کرنے سے دماغی کینسر سے حفاظت

دوران تلاوت غنہ کرنے سے دماغی کینسر سے حفاظت

ابوالحسن قاسمی

آج انکھوں کے معائنے کے سلسلے میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا ڈاکٹر عمران صاحب تھے پہلے میں نے نظر چیک کروائی نظر چیک کروانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے آنکھوں میں کچھ قطرے ڈالے ، پھر مشین سے چیک کیا پھر دوبارہ قطرے ڈالے پھر چیک کیا تو اسی دوران کہنے لگے کہ آپ کا تلاوت کا معمول کیا ہے ؟ میں نے انہیں بتایا کہ جب میں فجر کی نماز پڑھانے جاتا ہوں تو راستے میں جاتے ہوئے میں سورہ یاسین کی تلاوت کرتا ہوں ، نماز پڑھا کے واپس گھر آتا ہوں تو روزانہ کا معمول ہے کہ ایک پارہ تلاوت کرتا ہوں جو کم از کم ہے اور باقی اذکار اور معمولات بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں وہ کہنے لگے کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے ایک تو اونچی آواز سے تلاوت کیا کریں دوسرا یہ کہ بیٹھ کے تلاوت کیا کریں اور تیسرا یہ کہ وہ حروف جن پہ غنہ ہوتا ہے وہ غنہ آپ كو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے میں ان کی بات بہت توجہ سے سن رہا تھا کہنے لگے کہ یہ جو ہم غنہ کرتے ہیں اور آواز ناک میں جاتی ہے تو اس کی وجہ سے آنکھوں کے ارد گرد اور پیشانی پہ جو چھوٹی چھوٹی وینز اور چھوٹی چھوٹی رگیں ہیں ان کا جال پھیلا ہوا ہے غنہ کرنے سے ان رگوں پہ دباؤ پڑتا ہے اور ایک اثر پڑتا ہے ان سے ایک قسم کی لہریں اٹھتی ہیں جو لہریں انسان کو دماغی بیماریوں سے اور کینسر کی بیماری سے محفوظ بھی رکھتی ہیں اور یہ غنہ کرنا ان بیماریوں کا علاج بھی ہے۔
 سبحان الله

مکاتب میں تعلیم کا نقصان

 مکاتب میں تعلیم کا نقصان 

چند باتوں سے مکتب کی تعلیم کمزور ہو جائے گی اس خیال فرمائیں ۔

 تبدیل مدرس: یعنی معمولی معمولی غلطیوں پر اور بدگمانی کی بنیاد پر بلا تحقیق مدرس کو بدل دینا یہ صحیح نہیں ہے ۔

 تبدیل نصاب: یعنی بار بار نصاب کو بدلتے رہنا یہ صحیح نہیں ہے، ہاں طریقہ بدل سکتے ہیں ۔

 تبدیل جماعت: یعنی ایک مدرس کو کم سے کم ایک جماعت پانچ سال تک پڑھانے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اس جماعت کا ماہر بن جائے ہاں بچے بدلتے رہیں گے ۔

 تبدیل مکتب: یعنی ایک محلے میں دو تین مکتب ہو تو بچوں کا ادھر ادھر ہونا اس لیے اجازت نامہ کے بغیر داخلہ نہ کریں ۔

 طرفین (استاد اور طلبہ) کو کثرت سے غیر حاضری کا عادی بننا: 

 بچوں پر ظلم کرنا یعنی معصوم بچوں کو مارنا نہیں چاہیے شفقت سے پڑھانا چاہیے ۔

 دوران درس موبائل فون کا بغیر ضرورت کے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

 کم تنخواہ یہ بھی ایک سبب ہے ۔

 آزادی سے اچھا کام کرنے والوں کی آزادی میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے ۔

 آپس کا اختلاف : یہ بھی بڑی خطرناک چیز ہے اتفاق اور محبت سے کام کرنا چاہیے ۔

 بے فکری: یہ بھی بڑا خطرناک مرض ہے ۔

 جماعت بندی نہ بنانا ۔

 بلیک بورڈ کا استعمال نہ کرنا ۔

 غلط طریقہ: صرف رٹنے رٹانے سے کام یعنی آواز کی نقل وحرکت کرانا ۔

 بچوں کے اوقات کو مفید نہ بنانا ۔

 نظام الاوقات نہ بنانا ۔

 کثرت طلبہ: ایک استاد کے پاس کم سے کم تعداد ہونا چاہیے اگر زیادہ تعداد ہو تو دوسرے مدرس کا انتظام کرنا چاہیے ۔

 مخلوط جماعتیں ہو تو صحیح نظام بناکر کام کرنا چاہیے ۔

 اخلاص اور اخلاق کی کمی اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر اس کو بھی دور کرنا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت صحیح نیت کے ساتھ صحیح ترتیب کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین

نوٹ: الفاظ کی کمی بیشی سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ بندہ حافظ ہے الحمدللہ اردو میں کمزور ہو ۔
دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کمی کو بھی دور فرمائیں

حق. اور باطل کی پہچان کامعیار

حق. اور باطل کی پہچان کامعیار
حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری
 خلیفہ ومجاز قطب الاقطاب 
حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله تعالى نے ارشاد فرمایا کہ
 اگر کسی مسئلہ کے حق و باطل ہونے میں شبہ ہو اور معلوم نہ ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر

اس وقت یہ دیکھاجائے کہ کس کی طرف اہل نظر اور مشائخ ہیں اور کس کی طرف بازاری لوگ اور عوام ؟

 ارشاد فرمایا کہ جدھر عوام ہیں اگرچہ وہ بظاہر دینی اور روحانی کام معلوم ہورہا ہے لیکن اس سے بچو اور جدھر اہل اللہ اور مشائخ ہوں اس کی طرف ہو جاؤ، اس میں ضرور خیر ہوگی؛ اس لئے کہ مشائخ کا دل ظلمت و تاریکی کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔
( تذکرۃ الخلیل ص 250)

یہ اولادیں آپکے لیے قرآن پڑھیں گی

آپکو کیا لگتا ہے آپکے مرنے کے بعد آپکے رشتےدار آپکے دوست آپکی اولاد آپکے بہن بھائی قرآن پڑھ پڑھ کے آپکو بخشوا لیں گی 

 یہ اولادیں آپکے لیے قرآن پڑھیں گی 
جو آج آپکے کہنے پر نماز پڑھنے نہیں اٹھتی 
یہ رشتےدار آپکے لیے دعا کریں گے جن سے آپکی لڑایاں ہی ختم نہیں ہوتیں؟
 یہ دوست، یہ بہن بھائی آپکے لیے صدقہ خیرات کریں گے جو عید کے عید ملتے ہیں ؟

اے بھولے انسان خلوص کے زمانے گزر گئے ہیں
 یہ افراتفری کا دور ہے
 یہاں لوگ زندوں کو بھولے بیٹھے ہیں
 مرنے کے بعد کون یاد رکھے گا
 اپنی آخرت کی فکر خود کریں
 اپنے لیے قرآن خود پڑھیں
 یہی عقلمندی ہے اور اپنے ہاتھ سے صدقہ خیرات کر کے رخصت ہوں..

بیماری اور امراض کے علاج کیلئے وظیفہ

بیماری کیلئے وظیفہ


بیماری کا علاج جیسے دوا سے ہوتاہے اسی طرح مسنون دعاؤں اور کلمات سے بھی اللہ تعالیٰ بیماریوں کو ٹالتے ہیں، آپ علاج کے لیے درج ذیل امور پر عمل کیجیے:

1- حسبِ استطاعت کثرت سے صدقہ کیجیے؛ کیوں کہ صدقہ کرنا بہترین علاج ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، صدقہ بیماری کو دور کرتا ہے؛ اس لیے حسبِ توفیق صدقہ ادا کرتے رہیں۔

جامع الأحاديث (11/ 277):

''تصدقوا وداووا مرضاكم بالصدقة؛ فإن الصدقة تدفع عن الأعراض والأمراض، وهي زيادة في أعمالكم وحسناتكم''. (البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عمر)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دو اور اپنے مریضوں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو ؛ اس لیے کہ صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دور کرتاہے اور وہ تمہارے اعمال اور نیکوں میں اضافے کا سبب ہے۔

2- روزانہ صبح نہار منہ سات دانے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور کھائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیماری بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ حدیث شریف میں ہے:

''عن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من تصبّح بسبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر. متفق عليه. وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن في عجوة العالية شفاء، وإنها ترياق أول البكرة. رواه مسلم.''

ترجمہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص صبح کے وقت عجوہ (کھجور) کے سات دانے کھائے اس دن اسے نہ تو زہر نقصان پہنچائے گا نہ ہی جادو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عالیہ (مدینہ منورہ کی بالائی جانب) کی عجوہ (کھجور) میں شفا ہے، اور اسے نہار منہ کھانا "تریاق" (زہرکا علاج) ہے۔ (مسلم)

3- مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب (مثلاً: مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب کی کتاب "مسنون دعائیں") خرید لیجیے، اور اس سے صبح وشام حفاظت کی دعائیں اور بیماری وغیرہ کی دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں۔

4- "یا سلام" کا کثرت سے ورد کریں، امید ہے اللہ پاک جلد صحت سے نوازیں گے۔

5- درج ذیل اذکار صبح و شام سات سات مرتبہ پابندی سے یقین کے ساتھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر سر سے پیر تک اپنے پورے جسم پر پھیردیں ان شاء اللہ ہر قسم کےسحر، آسیب اور نظرِ بد کے اثراتِ بد سے حفاظت رہے گی:

درود شریف، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ الم نشرح، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس اور درود شریف

6- درج ذیل دعا صبح و شام پڑھنے کا اہتمام کریں:

" أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔ "

اس کے علاوہ پنج وقتہ باجماعت نمازوں کا اہتمام کریں اور ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کریں۔ فقط واللہ اعلم

شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین اور نیوتہ کا حکم

شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین اور نیوتہ کا حکم


 *تحفہ کے لین دین کی اِفادیت واہمیت اور اسلامی تعلیمات:*

تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں ایک جائز بلکہ کئی اعتبار سے ایک بہت ہی مفید عمل ہے، یہ معاشرے کا اہم جُز ہے، اس کے متعدد فوائد ہیں: اس سے محبتیں پیدا ہوتی ہیں، باہمی نفرتیں اور رنجشیں ختم ہوتی ہیں، تعلقات اور رشتوں میں استحکام اور پائیداری آتی ہے بلکہ یہ مضبوط اور خوشگوار تعلق کی علامت ہوا کرتا ہے۔
دینِ اسلام نے بھی باہمی ہدیے اور تحفے کے لین دین کو اہمیت دی ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے، البتہ دین اسلام نے ہدیہ اور تحفہ کے لین دین سے متعلق ہدایات اور تعلیمات بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ *’’ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے باہمی محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘* جیسا کہ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:
12297- عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «تَهَادَوْا تَحَابُّوا». 
اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس کے بدلے میں ہدیہ بھی عنایت فرماتے تھے:
2585- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا.
اسلام نے تحفے اور ہدیے کے لین دین سے متعلق سنہری تعلیمات اسی لیے بیان فرمائی ہیں کہ اگر اس کو حدود اور احکام کا پابند نہ بنایا جائے تو زندگی کا یہ مفید عمل متعدد خرابیوں کا باعث بن کر اپنی اِفادیت اور اہمیت کھو بیٹھتا ہے، گویا کہ تحفے اور ہدیے سے متعلق دینی تعلیمات در حقیقت اس کی اہمیت اور افادیت برقرار رکھنے کے لیے ہیں، کیوں کہ دورِ حاضر میں یہ ایک ایسی بے جان رسم بنتی جارہی ہے جس سے متعدد خرابیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ 

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین سے متعلق دینی تعلیمات اور حدود:*
واضح رہے کہ شادی بیاہ میں تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں جائز اور ایک مفید عمل ہے، البتہ اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ دینی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے:
1⃣ تحفہ کا لین دین خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور باہمی محبت وتعلق کی پاسداری کے طور پر ہونا چاہیے کیوں کہ جب تحفہ خلوصِ نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے دیا جائے تو وہ محبتوں کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں۔ اس لیے تحفہ دیتے وقت بدلہ ملنے کی نیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دوسرے کو تحفہ اس وقت دینا ہے جب وہ بھی دے گا کیوں کہ یہ دونوں مذموم اور قابلِ اصلاح نیتیں ہیں۔  
2⃣ اگر کوئی شخص ایسا تحفہ اس لیے دیتا ہے کہ میری خوشی کے موقع پر مجھے بھی ملنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس میں قرض کا معنی آجاتا ہے جس کی وجہ سے معاملہ کوئی اور رخ اختیار کرلیتا ہے جبکہ یہ معاملہ اصولی طور پر تحفے کا تھا، تو قرض کی صورت میں پھر قرض کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، جس میں کمی بیشی سے سود کا اندیشہ ہوتا ہے کیوں کہ تحفہ دے کر زیادہ قیمتی تحفے یا اضافی رقم کا مطالبہ سود کے زمرے میں آئے گا جس کا ناجائز ہونا واضح ہے۔ اس لیے اگر واقعی قرض ہی دینا ہے تو پھر معاملہ صاف ہونا چاہیے اور پھر قرض کے احکامات کی پاسداری ہونی چاہیے۔

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی مروّجہ خرابیاں:*
ماقبل کی تفصیل کی رو سے شادی بیاہ میں بھی تحفے کے طور پر رقم کا لین دین جائز بلکہ کئی اعتبار سے بہترین عمل قرار پاتا ہے جس کی تفصیل بیان ہوچکی، لیکن اس معاملے میں مذکورہ بالا شرعی تعلیمات نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایک افسوس ناک صورتحال سامنے آئی ہے کہ:
☀️ بہت سے لوگ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین محض ریاکاری اور دکھلاوے کے طور پر کرتے ہیں، جس سے مقصود نام ونمود ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ریاکاری ایک سنگین گناہ ہے۔
☀️ بہت سے لوگ تحفے کا لین دین نہ چاہتے ہوئے بھی محض رسم پوری کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی ملامت سے بچا جاسکے، ظاہر ہے کہ دینی تعلیمات کی رو سے یہ طرزِ عمل مفید نہیں بلکہ حوصلہ شکنی اور اصلاح کے قابل ہے۔
☀️ بہت سے علاقوں میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین بدلے کے طور پر ہونے لگا ہے کہ اس بنیاد پر تحفہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری شادی کے موقع پر ہمیں بھی تحفہ دے گا، بلکہ بعض جگہ تو باقاعدہ تحفہ دینے والوں کے نام اور رقم تک لکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی شادی کے موقع پر یہ بدلہ چکایا جاسکے، اور جس نے تحفے میں رقم نہیں دی تو اس کو بھی بدلے میں تحفہ نہیں دیا جاتا۔
☀️ بعض قوموں میں شادی کے موقع پر تحفہ تحائف دینا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شادی کے موقع پر تحفہ نہ دے تو اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس کو ملامت کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو تعلق بھی ختم کردیا جاتا ہے۔
بعض جگہ نیوتہ کے نام سے یہ رواج ہے کہ شادی بیاہ میں تحفے کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے تو اپنی شادی کے موقع پر اس سے زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور یہ مطالبہ پورا نہ کرنے والوں سے گلے شکوے کیے جاتے ہیں اور انھیں ملامت کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ تحفے کے معاملے کو قرض کے معاملے میں تبدیل کردیتا ہے اور قرض میں اضافے کا مطالبہ سود ہے۔ 
ایسی تمام تر باتیں دینی تعلیمات اور مزاج کے سراسر خلاف ہیں، اسلام ہمدردی، خلوص اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے، اور انھی خرابیوں کا نتیجہ ہے کہ یہ اہم اور مفید عمل معاشرے میں ایک بوجھ اور بے جان رسم بن کر رہ گیا ہے جس سے محبتوں کی بجائے نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی موجودہ صورتحال اور نیوتہ کی رسم کا حکم:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ صحیح مسئلہ واضح ہوجاتا ہے کہ شرعی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے اپنی ذات میں یہ جائز ہے لیکن آجکل معاشرے میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کے لین دین میں متعدد خرابیاں آچکی ہیں اور لوگ مذکورہ بالا دینی تعلیمات کی رعایت بھی نہیں کرتے بلکہ نیوتہ کے نام سے باقاعدہ ایک غیر شرعی رسم جاری ہے، اس لیے موجودہ صورتحال میں ان خرابیوں کی اصلاح کیے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لیےاس رسم سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اس سے متعلق استاد محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلہم کی مستند ترین ترجمہ وتفسیر ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
آسان ترجمۂ قرآن سورۃ الروم آیت 39:
وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ‌ۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ۔
▪ *ترجمہ:*
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتے ہو، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔

☀️ *تفسیر:*
واضح رہے کہ اس آیت میں ربا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مشہور معنی سود کے ہیں، لیکن اس کے ایک معنی اور ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص اس نیت سے کسی کو کوئی تحفہ دے کہ وہ اس کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ دے گا، مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر نیوتہ کی جو رسم ہوتی ہے اس کا یہی مقصد ہوتا ہے، چنانچہ بہت سے مفسرین نے یہاں ربا کے یہی معنی مراد لیے ہیں، اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں نیوتہ کی رسم کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس قسم کا تحفہ جس کا مقصد قیمتی تحفہ حاصل کرنا ہو اس کو سورة مدثر (آیت نمبر : 6) میں بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)

ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین شرعی احکام وحدود کے تحت لانے کی اشد ضرورت ہے، بصورتِ دیگر اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ 

🌻 *فائدہ برائے اہلِ علم:*
ماقبل میں ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ کی تفسیر میں جن دو آیات (یعنی سورۃ الروم آیت: 39 اور سورۃ المدثر آیت: 6) کا ذکر ہوا ان کی روشنی میں نیوتہ کی ممانعت سامنے آتی ہے اور تفاسیر میں بھی ان مقامات کی تفسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے حتی کہ متعدد حضرات صحابہ کرام وتابعین عظام سے منقول تفسیر میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
☀️ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
▫️395- مَنْ كَرِهَ أنْ يُعْطي الشَّيء وَيَأخُذ أَكْثَرَ مِنْهُ:
▫️23111- حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتَزْدَادَ.
▫️ 23112- حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: حدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: لَا تُعْطِ الْعَطِيَّةَ فَتُرِيدُ أَنْ تَأْخُذَ أَكْثَرَ مِنْهَا.
▫️ 23113- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتُعْطَى أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23116- حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ نَافِعِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِي قَوْلِهِ: «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِي شَيْئًا تَطْلُب أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23117- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: الرَّجُلُ يُعْطِي لِيُثَابَ عَلَيْهِ: «وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوَا عِنْدَ اللهِ».
▫️ 23118- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الْهَدَايَا.
▫️ 23119- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُعْطِي قَرَابَتَهُ لَيَكْثُرَ بِذَلِكَ مَالَهُ.
☀️ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:
13715- وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سَابُورَ عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ رَجُلًا لِيُعْطِيَكَ أَكْثَرَ مِنْهُ.

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم